The Quiet Kind of Respect
By Afzal Ahamed Malik
Why do we chase their nods and eyes,
Those who never saw our lows or rise?
Why do we ache for hands to applaud,
When they never knew the battles we fought?
We stand in rooms, hoping to be seen,
Measured by people who never ask where we've been.
But tell me, dear soul—what would it feel like,
To walk away… and still shine bright?
What if your silence was power, not shame?
What if you didn’t need to play their game?
What if you chose peace over their pride,
And found your worth on the inside?
The deepest respect is the one you give,
When you choose yourself and finally live.
When you stop begging to be understood—
And start believing you were always good.
You don’t need to shout.
You don’t need to stay.
You’re not made to shrink
In places that chip you away.
Let them question.
Let them ignore.
You were never meant
To beg for more.
Because dignity isn’t loud.
It doesn't wear a crown.
It’s in the way you rise—
Each time they try to push you down.
So heal the need to be seen by them.
You were never small.
They just never had the depth
To hold someone like you at all.
Walk with quiet pride.
Stand in your truth.
And know—
That the most sacred respect…
Is the one you give back to you.
خاموش وقار کی عزت
افضال احمد ملک
ہم کیوں ترستے ہیں اُن کی نگاہوں کے اشاروں کو؟
جو نہ ہمارے زوال کو سمجھے، نہ عروج کو۔
ہم کیوں چاہتے ہیں کہ وہ تالیاں بجائیں،
جنہیں ہمارے زخموں کی کہانی تک نہ آئے؟
ہم کمروں میں کھڑے رہتے ہیں، نظر آنے کی خواہش لیے،
ایسے لوگوں کے سامنے، جنہوں نے کبھی ہماری راہیں نہ پوچھیں۔
لیکن اے دل، سوچ کے بتا…
اگر تُو خاموشی سے رخصت ہو،
اور پھر بھی روشنی بکھیرے، تو کیسا لگے گا؟
اگر تیری خاموشی کمزوری نہیں، طاقت ہو؟
اگر تُو اُن کے کھیل میں شامل نہ ہو؟
اگر تُو اُن کے غرور پر سکون کو ترجیح دے،
اور اپنی اصل قیمت اندر سے پائے؟
سب سے بڑی عزت وہ ہے جو تُو خود کو دے،
جب تُو اپنے آپ کو چُنے… اور جینے لگے۔
جب تُو سمجھنے کی بھیک مانگنا چھوڑ دے،
اور یقین کرنے لگے کہ تُو ہمیشہ سے کافی تھا۔
تجھے چیخنے کی ضرورت نہیں،
رُکنے کی بھی نہیں۔
تُو بنا ہی اس لیے ہے
کہ اُن جگہوں پر نہ جھکے، جہاں تجھے توڑ دیا جائے۔
انہیں سوال کرنے دو۔
انہیں نظرانداز کرنے دو۔
تُو کبھی بھی اس قابل نہ تھا
کہ کسی کے در پر عزت مانگے۔
کیونکہ وقار چیخنے والا نہیں ہوتا،
یہ تاج نہیں پہنتا،
یہ اُس انداز میں جھلکتا ہے
جب تُو ہر بار گرا کر بھی اٹھتا ہے۔
تو اُن کی نظر میں آنے کی طلب کو ختم کر دے۔
تُو کبھی چھوٹا نہ تھا،
بس اُن میں اتنی گہرائی ہی نہ تھی
کہ تجھے سنبھال سکیں۔
خاموش فخر سے قدم بڑھا،
اپنی سچائی میں کھڑا ہو جا،
اور جان لے—
سب سے پاکیزہ عزت وہ ہے
جو تُو خود کو واپس دیتا ہے۔